I'm 50% single.
میں پچاس فیصد سنگل ہوں۔
یہ جملہ میرے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ لے آیا۔ کمرے کی خاموشی میں لیمپ کی مدھم روشنی چاروں طرف سایوں کا کھیل کھیل رہی تھی۔ میں نے فون کی سکرین دوبارہ دیکھی۔ یہی وہ لائن تھی جس نے آج کل سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی مچا رکھا تھا۔ "I'm 50% single." کیا مذاق تھا۔ پر، کچھ دنوں سے یہی مذاق مجھ پر حقیقت بن کر مسلط ہو رہا تھا۔
میرا نام زیان ہے۔ ایک عام سا ملازم، ایک عام سی زندگی گزارتا ہوا۔ والدین کی ایک ہی خواہش تھی کہ میں "بیٹھ کر" ہو جاؤں۔ ان کی نظر میں "بیٹھنا" شادی کے مترادف تھا۔ اور یوں، ایک خوبصورت سی لڑکی، مہک، سے میری ملاقات ہوئی۔ اچھی لڑکی تھی۔ نرم، شائستہ، اور بالکل اس خاکے کی طرح جسے میرے والدین اپنی بہو کے لیے دیکھتے تھے۔ منگنی ہو گئی۔ تاریخیں طے ہو گئیں۔ میں پچاس فیصد سنگل سے پچاس فیصد انگیجڈ ہو چکا تھا۔
پھر وہ ملاقات ہوئی۔ دفتر کی ایک نئی ٹرینى، انایا۔ وہ بجلی کی طرح تھی۔ چمکدار، تیز، اور ایک سپنے کی طرح گزرنے والی۔ اس کے آنے کے بعد ہر بات، ہر لمحہ، ہر گفتگو میں ایک نئی بجلی دوڑنے لگی۔ ہم دوست بن گئے۔ پھر وہ دوستی جس میں ہر نظر ایک سوال بن جاتی، ہر ہنسی ایک معنی رکھنے لگتی۔
ایک دن دفتر کی لائبریری میں، جہاں کتابیں ہماری جرات کے لیے گواہ بنیں، اس نے کہا، "تمہاری شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں نا؟"
میں نے ایک گہری سانس لی۔ "ہاں۔"
"مبارک ہو۔" اس کی آواز میں ایک پراسرار سکون تھا۔
"شکریہ۔" میری آواز میں وہی سکون نہیں تھا۔
خاموشی چھا گئی۔ ہم دونوں ایک بڑی کھڑکی کے سامنے کھڑے تھے۔ باہر بارش ہونے کو تھی۔ ہوا میں نمی تھی، اور ہوا میں ایک عجیب سی بے چینی۔
پھر وہ مڑی۔ اس کی آنکھوں میں وہ سوال تھا جو وہ پوچھ نہیں سکتی تھی۔ میری آنکھوں میں وہ جواب تھا جو میں دے نہیں سکتا تھا۔ فاصلہ کم ہوتا گیا۔ سانسوں کی آوازیں ہوا سے ٹکرانے لگیں۔ اور پھر، دونوں کے ہونٹ ملے۔
یہ بوسہ چوری کیا ہوا تھا۔ وہ لمحہ جو معاشرے، وعدوں، ذمہ داریوں، اور ہر اس چیز سے چرا لیا گیا تھا جو ہمارے درمیان حائل تھی۔ یہ بوسہ ہمارا تھا، صرف ہمارا۔ ایک لمحے کے لیے، وقت رک سا گیا۔ لائبریری کی ہوا میں جمنے والی خاموشی، کتابوں کی پرانی مہک، اور ہمارے دلوں کی تیز دھڑکنیں۔ یہ سب کچھ حقیقت سے زیادہ خواب لگ رہا تھا۔
یہ بوسہ کتنا میٹھا تھا۔
چوری کیا ہوا پھل ہمیشہ سب سے میٹھا ہوتا ہے۔
یہ میٹھا پن اس کی ممنوعہ نوعیت میں تھا۔ اس علم میں کہ یہ ہمارا آخری بوسہ ہو سکتا ہے۔ اس ڈر میں کہ کوئی ہمیں دیکھ لے گا۔ اس یقین میں کہ ہم دوبارہ ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ میٹھا پن، درحقیقت، ایک پیچیدہ المیے کا آغاز تھا۔
بوسہ ختم ہوا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے دور ہٹے، گویا بجلی کے ایک تھپیڑے نے ہمیں الگ کر دیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میرے دل پر ایک بوجھ۔
"میں تم سے معافی چاہتا ہوں،" میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
اس نے مسکرانے کی کوشش کی، "کسی سے معافی مت مانگو زیان۔ خاص طور پر اپنے آپ سے۔ ہم نے تو بس... ایک لمحہ چرایا ہے۔ بس۔"
اور پھر وہ چلی گئی۔ لائبریری میں میں اکیلے کھڑا تھا۔ باہر بارش شروع ہو چکی تھی۔ ہر قطرہ شیشے پر ایک داغ بن کر بہہ رہا تھا، جیسے میرے دل پر انایا کے چہرے کا داغ تھا۔
آج، کئی مہینے گزر چکے ہیں۔ میں مہک کے ساتھ ہوں۔ ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں۔ پر جب بھی اکیلے ہوتا ہوں، جب بھی کوئی پرانا گانا سنتا ہوں، جب بھی بارش ہوتی ہے، وہ لمحہ دوبارہ جاگ اٹھتا ہے۔
چوری کیا ہوا بوسہ۔
وہ ہمیشہ سب سے میٹھا ہوتا ہے۔
کیونکہ وہ کبھی تمہارا ہوتا ہی نہیں۔ وہ صرف ایک لمحہ ہوتا ہے، ایک خواب، ایک چرائی ہوئی خوشبو۔ وہ ہمیشہ کے لیے اپنی میٹھاس کے ساتھ تمہارے ذہن کے کسی کونے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس میں روزمرہ کی ذمہ داریوں کی کوئی کڑواہٹ نہیں ہوتی، نہ ہی مستقبل کے دباؤ کا کوئی وزن۔ وہ خالص ہے۔ ایک پگھلا ہوا لمحہ۔
میں اب پچاس فیصد سنگل نہیں ہوں۔ شاید میں سو فیصد ویڈ ہو چکا ہوں۔ پر میرا ایک حصہ، وہ پچاس فیصد، ہمیشہ اس لائبریری میں، اس بارش والی شام، اور اس چوری کیے ہوئے میٹھے بوسے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے سنگل رہے گا۔
کیونکہ چوری کیا ہوا پھل ہمیشہ سب سے میٹھا ہوتا ہے۔ اور چوری کیا ہوا بوسہ... وہ تو زندگی بھر کی میٹھی چوری ہے۔
Comments
Post a Comment